ایک جنگل میں بندروں کی ایک ٹولی رہتی تھی۔اس ٹولی میں دوبچے بھی تھے،جو بہت زیادہ شرارتی تھے۔ان کے ماں باپ بھی ان کی شرارتوں سے تنگ آگئے تھے۔اسی جنگل میں ایک ننھا ژراف بھی رہتا تھا۔وہ بہت ہی سیدھا سادا اور بھولا بھالا بچہ تھا۔ ایک دن گھاس چرتے چرتے وہ جنگل کے اس حصے میں آگیا جہاں بندروں کی یہ ٹولی درختوں سے پتے اور پھل فروٹ توڑ توڑ کر کھانے میں مگن تھی۔دونوں چھوٹے شرارتی بندروں نے ژراف کو دیکھا تو انھیں حیرت ہونے لگی۔کیونکہ ان بچوں نے کبھی ایسا کوئی بھی جانور نہیں دیکھا تھا۔ بندر کے ایک بچے نے کہا”ارے!دیکھو تو کتنا عجیب و غریب جانور ہے،آؤ اسے چھیڑتے ہیں۔“ دونوں بندر کودتے پھلانگتے اس درخت پر پہنچ گئے جس کے نیچے کھڑے ہو کر ژراف پتے کھا رہا تھا۔ (جاری ہے) اس درخت کی ایک شاخ پر بیٹھ کر دونوں نے ژراف سے کہا”اے لمبو!تمہارا کیا نام ہے․․․․؟“ ژراف نے بڑی نرمی سے کہا”میں ژراف ہوں،کیا مجھ سے دوستی کرو گے؟تم لوگوں کے نام کیا ہیں؟“ دونوں بندر شرارت سے کھکھلا کر ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ”تم سے ہم کیوں دوستی کرنے لگے․․․؟کتنے بد صورت ہو تم،مینار کے جیسی گردن اور سیڑھی کے جیسے پیر۔ ہمیں نہیں کرنی ایسے بے ڈھنگے جانور سے کوئی دوستی․․․․․!“اتنا کہہ کر دونوں بندر ژراف کو چڑانے لگے۔ایک بندر نے درخت سے ایک پکا ہوا پھل توڑ کر ژراف پر پھینک مارا۔پھل ژراف کے منہ پر لگ کر پھوٹ گیا اور اس کا رس اور گودا ژراف کے چہرے پر پھیل گیا۔ یہ دیکھ کر دونوں بندر قہقہہ مار کر ہنسنے لگے اور کودتے پھلانگتے وہاں سے بھاگ گئے۔ژراف بے چارہ روہانسا ہو کر رہ گیا اور منہ لٹکائے وہاں سے چلا گیا۔ ایک دن دونوں شرارتی بندروں نے یہ طے کیا کہ وہ جنگل میں خوب دور تک اکیلے گھومنے کے لئے چلیں گے۔ صبح صبح جب باقی بندر سو رہے تھے،یہ دونوں شرارتی بندر چپکے سے نکل پڑے۔کچھ ہی دیر میں وہ بندروں کی ٹولی سے بہت دور نکل گئے۔جب انھیں زوروں کی بھوک لگی تو ان دونوں نے پیڑوں کی پتیاں اور پھل فروٹ کھا لیے۔انھیں اس طرح گھومنے پھرنے اور موج مستی کرنے میں بڑا مزہ آرہا تھا۔ دوپہر ہو چلی تھی۔وہ دونوں گرمی سے بچنے کے لئے ایک درخت کی ہری بھری شاخوں پر جا کر بیٹھ گئے،اُس درخت کے نیچے ایک شیر آرام کر رہا تھا۔پیڑ کے آس پاس ایک بڑا ہرا بھر امیدان تھا۔میدان کے کنارے ایک ندی بہہ رہی تھی۔بندر اُس سہانے منظر میں ایسا کھوئے کہ انھیں اس بات کا احساس ہی نہ ہوا کہ یہاں ایک شیر بھی موجود ہے۔ لیکن جب شیر اپنے چہرے پر بیٹھی ہوئی مکھیوں کو اڑانے کے لئے غرایا تو بندروں نے شیر کو دیکھ لیا۔شیر کو دیکھتے ہی وہ بری طرح ڈر گئے۔کچھ ہی دیر بعد انھیں یہ محسوس ہوا کہ ہم درخت کے اوپر محفوظ ہیں۔ چونکہ ان کے اندر شرارت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اس لئے یہاں بھی انھیں شرارت سوجھنے لگی۔ ان دونوں شرارتی بندروں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا اور درخت کا ایک پھل توڑ کر نیچے گرا دیا۔پھل سیدھا شیر کی ناک پر گرا۔شیر نے غصے سے دہارتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھا۔جب اس نے اوپر کی طرف دیکھا تو اس کی نظر بندروں پر پڑی۔ بندر کھی کھی کرکے ہنس رہے تھے،لیکن وہ زیادہ دیر تک نہ ہنس سکے،کیونکہ شیر آپے سے باہر ہو رہا تھا۔اس نے گرج دار آواز میں دہاڑتے ہوئے کہا”کیا تمہیں معلوم نہیں میں اس جنگل کا راجا ہوں۔فوراً اس درخت سے نیچے اترو۔میں تم دونوں کو کھا کر اس گستاخی کی سزا دوں گا۔ “ بندروں کو پھر ہنسی آگئی۔انھیں یقین تھا کہ ہم درخت پر محفوظ ہیں۔شیر ان کو اس طرح دوبارہ ہنستے ہوئے دیکھ کر غصے سے آگ بگولہ ہو گیا اور اپنے پیروں کو سمیٹ کر اسپرنگ کی طرح تیزی سے اچھلا۔ان دونوں شرارتی بندروں نے دیکھا کہ شیر کا جبڑا کھلا ہوا ہے اور اس کے تیز نوکیلے دانت ان کی طرف ہیں اور وہ بڑی تیزی سے اچھلتے ہوئے بالکل ان کے قریب آگیا ہے۔ دونوں بندروں کے تو ہوش ہی اڑ گئے اور ان کی ساری شرارت دھری کی دھری رہ گئی اور وہ دونوں ڈر کے مارے ایک دوسرے سے بُری طرح لپٹ گئے۔شیر نے چھلانگ تو بہت اچھی لگائی تھی لیکن جس شاخ پر وہ دونوں بندر بیٹھے ہوئے تھے شیر وہاں تک نہیں پہنچ سکا۔ شیر نے دوبارہ زبردست چھلانگ لگائی۔بندروں کی حالت بڑی پتلی ہو گئی تھی وہ ڈر کے مارے چیخنے چلانے لگے لیکن وہاں ان کی پکار سننے والا کوئی بھی نہیں تھا۔وہ تو اپنی ٹولی اور اپنے ماں باپ کی اجازت کے بغیر بھاگ کر آئے تھے۔اس درخت کے آس پاس کوئی دوسرا درخت بھی نہ تھا کہ وہ چھلانگ لگا کر اس پر چلے جاتے، اور نہ ہی اس درخت پر کہ جس پر وہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے اونچائی کی طرف کوئی مضبوط شاخ تھی جس پر جا کر وہ بیٹھ سکتے یوں سمجھ لیں کہ شرارتی اور نافرمان بندر آج بُری طرح پھنس گئے تھے۔ وہ اس حالت میں تھے کہ انھیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ یکایک ان کے کانوں میں دھیمے سے آواز آئی کہ”گھبراؤ مت!میں تم دونوں کو یہاں سے نکال لے جاؤں گا۔چپکے سے میری گردن کے سہارے میری پیٹھ پر اتر آؤ۔“ وہ کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے ٹھیک اوپر درخت کے پتوں کے درمیان سے اسی ژراف کا سر نکلا ہوا تھا جس کا ان لوگوں نے کچھ دن پہلے خوب مذاق اڑایا تھا۔ بندروں نے ایک دوسرے کو شرمندگی سے دیکھا کہ آج وہی ژراف ہماری جان بچانے کے لئے تیار ہے۔اس ژراف کو اس دن کی شرارتوں اور مذاق وغیرہ کا ذرا بھی خیال نہیں ہے۔دونوں بندروں نے اپنی نگاہیں نیچی کر لیں۔ ژراف نے کہا”میرے دوستو!جلدی کرو اگر شیر نے مجھے دیکھ لیا تو وہ ہم تینوں کو کھا جائے گا۔ “ بندر اب ڈرتے ڈرتے ژراف کی گردن پر پھسلتے ہوئے اس کی پیٹھ پر سوار ہو گئے اور ژراف انھیں لئے ہوئے تیز رفتاری سے وہاں سے کھسک گیا۔شیر کو پہلے تو پتا نہیں چل سکا کہ کیا ماجرا ہے۔لیکن جب اس نے ژراف کی پیٹھ پر سوار ہو کر دونوں بندروں کو بھاگ نکلتے ہوئے دیکھا تو اس نے دہاڑتے ہوئے ان کا پیچھا کیا۔ بندروں نے پیچھا کرتے ہوئے شیر کو دیکھا تو ان کی جان نکلنے لگی اور وہ بری طرح چیخنے چلانے لگے۔شیر پوری قوت کے ساتھ بندروں کو پکڑنے کے لئے دوڑ لگا رہا تھا اور غرائے جا رہا تھا۔ژراف نے بندروں کو سمجھایا کہ ”ڈرنے کی کوئی بات نہیں اب تم دونوں بالکل محفوظ ہو ۔ شیر مجھے کبھی نہیں پکڑ سکتا۔“ اور سچ مچ ہوا بھی ایسا ہی کہ ژراف نے شیر کو کافی پیچھے چھوڑ دیا۔ایک محفوظ جگہ پر پہنچ کر ژراف رُک گیا بندر چھلانگ لگا کر اس کی پیٹھ سے نیچے اتر گئے۔ تب ژراف نے ان دونوں سے کہا”اس دن تم دونوں نے میری لمبی گردن اور میری ٹانگوں کا بہت مذاق اڑایا تھا نا،آج دیکھ لیا ناکہ انہی کی وجہ سے تم لوگوں کی جان بچ سکی ہے۔ لمبی گردن کی وجہ سے ہی میں تم دونوں کو دور سے دیکھ سکا اور درخت سے تم کو اتار سکا۔اور لمبی ٹانگوں کی وجہ سے تیز دوڑ سکا۔“ بندر اس پر کیا کہہ سکتے تھے،دونوں نے شرم کے مارے اپنی اپنی گردنیں جھکا لیں اور خاموش رہے۔ ان کی یہ حالت،خاموشی اور شرمندگی کو دیکھ کر ژراف نے ہنستے ہوئے خود کہا کہ”چلو!چھوڑو ان باتوں کو،بھول جاؤ پچھلے قصبے کو،اب آج سے تو تم میرے دوست بن کر میرے ساتھ روزانہ کھیلو گے نا۔ “ ژراف کی یہ بھلائی دیکھ کر دونوں شرارتی بندروں کو اپنی حرکتوں پر سخت غصہ آنے لگا کہ ان لوگوں نے اتنے اچھے اور پیارے ژراف کو کیوں ستایا تھا اور اس کا مذاق کیوں اڑایا تھا؟ان دونوں نے اسی وقت ژراف سے معافی مانگی۔ ژراف نے کہا”دوستو!معافی کی کوئی ضرورت نہیں۔“ اتنے بڑے دل والے ژراف کی یہ باتیں سن کر ان دونوں شرارتی بندروں نے فیصلہ کر لیا کہ آج کے بعد سے وہ کسی کو نہیں ستائیں گے اور کسی کا مذاق نہیں اُڑائیں گے۔انہوں نے ژراف سے کہا کہ”ہم نے جان بوجھ کر بہت ستایا تھا،آج سے ہم کسی کو بھی نہیں ستائیں گے،نہ کسی کو بُڑا بھلا کہیں گے۔ آج سے تم ہمارے سب سے اچھے دوست ہو۔دونوں بندروں کی یہ بات سن کر ژراف کو بڑی خوشی ہوئی اور وہ ہنسی خوشی ساتھ رہنے لگے۔
Posted inاخلاقی کہانیاں